انقرہ کے قریب واقع TUSAS ایوی ایشن سائٹ پر دہشتگرد حملہ، 5 ہلاک اور 22 زخمی، حملہ آور ہلاک، تحقیقات جاری
:تحریر
ڈیلی شعور ٹیم
23 اکتوبر، 2024
ترکی کے دارالحکومت انقرہ کے قریب کہرامانکازان میں واقع ترکی کی سب سے بڑی ایوی ایشن کمپنی TUSAS کے ہیڈکوارٹر پر 23 اکتوبر 2024 کو ایک دہشت گرد حملہ ہوا جس میں پانچ افراد ہلاک اور بائیس زخمی ہوئے۔ یہ حملہ ترکی کی دفاعی صنعت کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہو سکتا تھا۔ اس حملے کو ترک حکومت نے دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا اور حملہ آوروں کو موقع پر ہلاک کر دیا گیا۔
اس حملے میں ملوث دہشت گرد تنظیم کی شناخت ابھی تک نہیں ہوئی، تاہم ترکی میں حالیہ برسوں میں شدت پسند تنظیمیں جیسے PKK (کردستان ورکرز پارٹی) اور داعش کے گروپس دہشت گردی کی کارروائیوں میں شامل رہے ہیں۔ PKK ترکی کے جنوب مشرقی علاقوں میں ایک مسلح جدوجہد چلا رہی ہے جس کا مقصد ترکی سے علیحدگی اور ایک آزاد کرد ریاست کا قیام ہے۔ دوسری جانب، داعش (ISIS) جیسے گروپ بھی ترکی کو اپنے ہدف پر رکھتے ہیں کیونکہ ترکی نے شام اور عراق میں ان کی سرگرمیوں کے خلاف عالمی اتحاد کا حصہ بن کر آپریشنز کیے ہیں۔
حملے کا مقصد ترکی کی دفاعی صنعت اور ایوی ایشن سیکٹر کو نشانہ بنانا تھا۔ TUSAS ایک اہم سرکاری ادارہ ہے جو ترکی کے دفاعی منصوبوں میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے، بشمول خودساختہ لڑاکا طیارے “KAAN” کی تیاری۔ دہشت گردوں کا مقصد ممکنہ طور پر اس ادارے کی پیداواری صلاحیت کو نقصان پہنچانا تھا تاکہ ترکی کے دفاعی نظام کو کمزور کیا جا سکے۔ ان دہشت گردوں کو کسی بیرونی طاقت یا خفیہ طور پر سپورٹ ملنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے، جو ترکی کی علاقائی حیثیت اور اس کی بڑھتی ہوئی عسکری طاقت کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
حملہ آوروں نے یہ حملہ ایک منظم طریقے سے کیا، اور انہوں نے TUSAS کے ہیڈکوارٹر کے سکیورٹی نظام میں نقب لگا کر عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ تاہم، ترک سکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ان دہشت گردوں کو ناکام بنا دیا اور دونوں حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ حملہ آوروں نے سکیورٹی کی ناکامی کا فائدہ اٹھا کر عمارت کے کچھ حصوں تک رسائی حاصل کر لی تھی، لیکن ان کی پیش قدمی کو فوراً روک دیا گیا۔
سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ترک سکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیاں حملہ آوروں کو وقت سے پہلے کیوں نہ روک سکیں۔ اس حوالے سے ممکن ہے کہ حملہ آوروں نے انتہائی خفیہ اور پیشہ ورانہ انداز میں سکیورٹی کو پریچ کیا ہو، یا اندرونی خفیہ معلومات کا استعمال کیا ہو۔ تاہم، ترک سکیورٹی فورسز کی فوری اور موثر ردعمل نے اس حملے کو بڑے نقصان میں تبدیل ہونے سے روک دیا۔
حملے کے بعد ترکی کی مختلف سیاسی جماعتوں اور سینئر شخصیات نے شدید ردعمل دیا۔ صدر رجب طیب اردگان، جو اس وقت روس میں BRICS اجلاس میں شریک تھے، نے اس حملے کی سخت مذمت کی اور اسے ترکی کے خلاف دہشت گردی کی بزدلانہ کارروائی قرار دیا۔ انہوں نے اس بات کا عزم کیا کہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا اور ترکی دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گا۔
ناتو کے سیکرٹری جنرل مارک رٹ نے بھی اس حملے کی مذمت کی اور کہا کہ ناتو اپنے اتحادی ترکی کے ساتھ کھڑا ہے اور اس کی مکمل حمایت کرے گا۔ یورپی یونین کے ترکی میں موجود وفد نے بھی حملے کی مذمت کی اور ترکی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
پاکستان کے صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف نے اس حملے کی مذمت کی اور ترکی کے عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا۔ صدر زرداری نے کہا کہ پاکستان ترکی کے ساتھ کھڑا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ترک بھائیوں کی ہر ممکن مدد کرے گا۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر ترک صدر اردگان کو تعزیت کا پیغام بھیجا اور ترکی کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔
دنیا بھر کے مسلم ممالک نے بھی اس حملے کی مذمت کی اور ترکی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) نے اس حملے کو مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائی قرار دیا اور کہا کہ اسلامی دنیا کو متحد ہو کر دہشت گردی کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
یہ حملہ ترکی کے دفاعی ادارے پر ایک سنجیدہ خطرہ تھا، لیکن ترک سکیورٹی فورسز کی بروقت اور موثر کارروائی نے دہشت گردوں کے ارادوں کو ناکام بنا دیا۔ اس واقعے نے ایک بار پھر دنیا بھر کے ممالک کو دہشت گردی کے خلاف متحد ہو کر کارروائی کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے۔ ترکی نے اس واقعے کے بعد سکیورٹی میں مزید اضافہ کیا ہے تاکہ اس طرح کے حملے دوبارہ نہ ہوں۔
Leave a Reply