بلوچستان میں دہشت گردی اور لسانی تعصب: ایک ریسرچ بیسڈ تجزیاتی رپورٹ
تحریر : ابرار احمد
بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات نے ایک بار پھر لسانی اور علاقائی تعصب کے مسائل کو اجاگر کیا ہے۔ مسافروں کو بسوں سے اتار کر قتل کرنے کا واقعہ نہ صرف انسانیت کے خلاف جرم ہے بلکہ یہ ملک کے اتحاد اور سالمیت کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس رپورٹ کا مقصد اس لسانی اور علاقائی تعصب کی جڑوں تک پہنچنا اور ان مسائل کو حل کرنے کے لیے تجاویز پیش کرنا ہے۔
پاکستان میں لسانی اور علاقائی تعصب کا مسئلہ نیا نہیں ہے۔ یہ تعصب مختلف صوبوں کے درمیان وسائل کی تقسیم، سیاسی حقوق، اور وفاقی حکومت کے فیصلوں کے حوالے سے پیدا ہوتا رہا ہے۔ بلوچستان میں، خاص طور پر، اس تعصب کو مزید ہوا اس وقت ملی جب وہاں کے عوام نے محسوس کیا کہ ان کے وسائل اور حقوق کا استحصال ہو رہا ہے۔
بلوچستان میں پنجاب کے لوگوں کو نشانہ بنانے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کے عوام کو وفاقی حکومت کی پالیسیوں پر اعتراضات ہیں، اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب اس کا بڑا حصہ دار ہے۔ یہ احساس محرومی اور ناراضگی دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے مقاصد کے لیے عوام کو اکسا سکیں۔
بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اور اس کی معدنی دولت اور جغرافیائی حیثیت پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ بلوچستان کو پورے پاکستان کی قیادت کرنی چاہیے کیونکہ اس کے پاس وہ وسائل اور صلاحیتیں موجود ہیں جو ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ تاہم، بدقسمتی سے وہاں کی محرومیاں اور مسائل اسے دہشت گردی کی طرف دھکیلتے ہیں۔
پاکستان میں اکثر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پنجاب کا وفاقی حکومت اور اداروں میں غلبہ ہے۔ تاہم، حقیقت کچھ یوں ہے:
قائداعظم محمد علی جناح: قائداعظم کا تعلق سندھ سے تھا۔
غلام محمد: غلام محمد کا تعلق پنجاب سے تھا۔
اسکندر مرزا:اسکندر مرزا کا تعلق بنگال سے تھا (بعد میں مشرقی پاکستان)۔
ایوب خان: ایوب خان کا تعلق خیبر پختونخوا سے تھا۔
یحيیٰ خان: یحییٰ خان کا تعلق پنجاب سے تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو: ذوالفقار علی بھٹو کا تعلق سندھ سے تھا۔
غلام اسحاق خان: غلام اسحاق خان کا تعلق خیبر پختونخوا سے تھا۔فاروق لغاری: فاروق لغاری کا تعلق بلوچستان سے تھا۔پرویز مشرف: پرویز مشرف کا تعلق سندھ (کراچی) سے تھا، اگرچہ ان کی پیدائش دہلی میں ہوئی تھی۔آصف علی زرداری: آصف علی زرداری کا تعلق سندھ سے تھا۔
عاصف سعید کھوسہ: عاصف سعید کھوسہ کا تعلق پنجاب سے تھا۔
اسی طرح وزراء اعظم کی تفصیل کچھ یوں ہے ، لیاقت علی خان: لیاقت علی خان کا تعلق پنجاب (بھارت کا حصہ) سے تھا۔خواجہ ناظم الدین: خواجہ ناظم الدین کا تعلق بنگال سے تھا۔حسین شہید سہروردی: حسین شہید سہروردی کا تعلق مشرقی پاکستان (بنگال) سے تھا۔ذوالفقار علی بھٹو: ذوالفقار علی بھٹو کا تعلق سندھ سے تھا۔محمد خان جونیجو: محمد خان جونیجو کا تعلق سندھ سے تھا۔
نواز شریف: نواز شریف کا تعلق پنجاب سے تھا۔بے نظیر بھٹو: بے نظیر بھٹو کا تعلق سندھ سے تھا۔عمران خان: عمران خان کا تعلق خیبر پختونخوا سے تھا۔شہباز شریف: شہباز شریف کا تعلق پنجاب سے ہے۔جنرل ایوب خان: ایوب خان کا تعلق خیبر پختونخوا سے تھا۔جنرل یحيیٰ خان: یحییٰ خان کا تعلق پنجاب سے تھا۔جنرل اسلم بیگ: اسلم بیگ کا تعلق خیبر پختونخوا سے تھا۔جنرل پرویز مشرف: پرویز مشرف کا تعلق سندھ (کراچی) سے تھا۔جنرل راحیل شریف:راحیل شریف کا تعلق پنجاب سے تھا۔جنرل قمر جاوید باجوہ: قمر جاوید باجوہ کا تعلق پنجاب سے تھا۔جنرل عاصم منیر:عاصم منیر کا تعلق پنجاب سے ہے۔ غلام اسحاق خان: غلام اسحاق خان وفاقی سیکرٹری خزانہ تھے اور بعد میں صدر بھی بنے۔ ان کا تعلق خیبر پختونخوا سے تھا۔اعجاز الحق: اعجاز الحق وفاقی وزیر تھے اور ان کا تعلق پنجاب سے تھا۔عبدالرب نشتر: عبدالرب نشتر بنگال سے تھے اور پاکستان کی تحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا۔اس موازنے سے ایک بات عیاں ہوتی ہے کہ ملک کے زیادہ تر سربراہان پنجاب سے نہیں بلکہ دوسرے صوبوں سے آتے رہے ۔
میں نے مزید تحقیق کی تو ایک اور اہم بات جو مجھے سمجھ آئی وہ یہ تھی کہ بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد پاکستان میں لسانی اور علاقائی تعصب نے زور پکڑا، جس کے نتیجے میں علیحدگی کی تحریکیں اور دہشت گردی کی کارروائیاں بڑھ گئیں۔ بنگلہ دیش کی علیحدگی نے دیگر صوبوں میں بھی اس احساس مکو جنم دیا، کہ بنگلہ دیش اگر آزاد ہوگیا ہے تو ہم کیوں نہیں ، خاص طور پر بلوچستان میں، جہاں کے عوام نے محسوس کیا کہ ان کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا جا رہا ہے جیسا کہ مشرقی پاکستان کے ساتھ ہوا تھا۔
پنجاب کو ٹارگٹ کرنے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے اور اس کی معیشت اور سیاست میں گہری جڑیں ہیں۔ اس کے علاوہ، وفاقی حکومت کے فیصلوں میں بھی پنجاب کی اہمیت زیادہ ہے، جس کی وجہ سے دیگر صوبوں میں اس کے خلاف ناراضگی پیدا ہوتی ہے۔خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پنجاب کے خلاف نفرت کے محرکات میں وفاقی حکومت کی پالیسیوں، وسائل کی غیر مساوی تقسیم، اور سیاسی حقوق کی عدم فراہمی شامل ہیں۔ ان علاقوں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پنجاب نے ان کے وسائل اور حقوق کو چھین لیا ہے، اور اس احساس محرومی کو دہشت گرد تنظیمیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
دہشت گرد تنظیمیں مالی لالچ، جذباتی استحصال، اور ناراضگی کا فائدہ اٹھا کر لوگوں کو بھرتی کرتی ہیں۔ ان تنظیموں میں شامل ہونے والے افراد کو مالی فوائد کی پیشکش کی جاتی ہے، اور انہیں یہ یقین دلایا جاتا ہے کہ وہ ایک مقدس مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں۔ بلوچستان کے مسائل کا حل وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، اور عوام کے مشترکہ تعاون سے ممکن ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ: بلوچستان کے وسائل کو منصفانہ طریقے سے تقسیم کیا جائے اور ان کا فائدہ وہاں کے عوام کو پہنچے۔ بلوچستان کے عوام کو ان کے سیاسی حقوق دیے جائیں اور انہیں وفاقی حکومت میں مناسب نمائندگی دی جائے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کو تعلیم و تربیت کے بہتر مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے چنگل میں نہ پھنسیں۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کے عوام کی ناراضگیوں کو دور کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے اور ان کے مسائل کو حل کرے۔
پاکستان کو متحد اور مستحکم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ لسانی اور علاقائی تعصب کا خاتمہ کیا جائے، اور دہشت گردی کے خلاف بھرپور اقدامات کیے جائیں۔ بلوچستان جیسے حساس علاقوں میں عوام کے مسائل کا حل اور ان کے حقوق کی فراہمی ہی ملک کی سلامتی اور استحکام کی ضمانت ہے۔
#Balochistan #Terrorism #PakistanSecurityForces #PunjabTargeted #AntiTerrorism #FederalGovernment #EthnicHarmony #CounterTerrorism #UnityForPakistan #PoliticalInclusion
Leave a Reply