اقوامِ متحدہ کا سیکریٹری جنرل اوتھانٹ ایک سعادت مند بیٹا

مختار مسعود کی تصنیف ‘آوازِ دوست ‘ کئی مضامین اور خاکوں پر مشتمل ہے جن پر انہوں نے خونِ تمنا اور خونِ جگر دونوں ہی صرف کیے۔ یہ نثر پارے بلیغ اور بلند خیالی کے ساتھ اپنے بے حد دل کش اور منفرد اسلوب کی وجہ سے ہمیشہ مختار مسعود کو زندہ رکھیں‌ گے۔

انشاء پرداز اور ادیب مختار مسعود کی کتاب سے ہم وہ واقعہ نقل کررہے ہیں‌ جو ماں اور بیٹے کے رشتے اور اس انمول لمحے کو ہمارے سامنے ایک خوب صورت مثال کے طور پر پیش کرتا ہے جس کا عالمی میڈیا میں چرچا ہوا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:

اوتھانٹ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری لاہور آئے۔ ان کا استقبال کرنے والوں میں‌، میں بھی شامل تھا۔ انہوں نے وی آئی پی روم میں کچھ دیر توقف کیا۔ اخباری نمائندے بھی یہاں تھے۔ وہ سوال پوچھتے رہے۔ اوتھانٹ ٹالتے رہے۔ میں دیکھتا اور سنتا رہا۔ یہ انٹرویو مایوس کن تھا۔ بے معنی جملے جو بے ایمانی سے قریب اور حقیقت سے دور ہوتے ہیں۔بے وزن باتیں جنہیں سفارتی آداب کہتے ہیں۔ بے وجہِ چشم پوشی اور جان بوجھ کر پہلو تہی۔ناحق اس عہدے دار کو دنیا کا غیر رسمی وزیراعظم کہتے ہیں۔ یہ شخص تو دنیا بھر سے خائف رہتا ہے اور ہماری طرح سیدھی بات بھی نہیں‌ کرسکتا۔ آٹوگراف بک جیب میں‌ ہی پڑی رہی اور دوسرے دن ان کا جہاز جاپان کے شہر ناگوما چلا گیا۔ بات آئی گئی ہو گئی اور ایک مدت گزر گئی۔

میں جاپان کے اسی شہر میں ٹھہرا ہوا تھا۔ میں نے انگریزی اخبار اور رسالہ خریدا۔ جب اسے کھولا تو اس میں‌ اوتھانٹ کی تصویر تھی۔ وہ برما گئے اور وہاں اپنی والدہ سے ملے۔یہ تصویر اس ملاقات کے متعلق تھی۔

تصویر میں‌ ایک دبلی پتلی سی بڑھیا اونچی کرسی پر ننگے پاؤں بیٹھی ہے۔ معمولی لباس اور اس پر بہت سی شکنیں۔ سادہ سی صورت اور اس پر بہت سی جھریاں۔ چہرہ البتہ مسرت سے دمک رہا ہے۔ اس کے قدموں میں اوتھانٹ ایک نفیس سوٹ پہنے بیٹھا ہے۔ اس تصویر کو دیکھ کر میں سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کو بھول چکا ہوں اور اب ایک سعادت مند بیٹے کی تلاش میں ہوں‌ تاکہ وہ میری آٹو گراف بک میں اپنے دستخط کر دے


Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *